مہاگٹھ بندھن: اتحاد سے اختلاف تک

تاثیر 21 اکتوبر ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

بہار کی سیاست ہمیشہ سے حیرتوں کا مرکز رہی ہے، مگر اس بار جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف انتخابی افراتفری نہیں، بلکہ ایک ایسے اتحاد کے بکھرنے کی داستان ہے، جس نے خود کو برسوں تک ’’سیکولر طاقتوں‘‘ کی علامت کے طور پر پیش کیا تھا۔ 2025 کے اسمبلی انتخابات سے عین پہلے مہاگٹھ بندھن میں جس طرح اختلافات کی دیواریں تیزی سے اونچی ہو ئی ہیں، وہ نہ صرف سیاسی دور اندیشی کی کمی بلکہ قیادت کے غرور اور خود پسندی کا ثبوت بھی ہیں۔ خاص طور پر راشٹریہ جنتا دل، جسے کبھی لالو پرساد یادو کے سیاسی تدبر کی شناخت سمجھا جاتا تھا، آج  وہ تیجسوی یادو کے غیرلچکدار رویے کی وجہ سے اتحاد کے اندر بےچینی کی سب سے بڑی وجہ بن چکاہے۔
جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم) کا اچانک مہاگٹھ بندھن سے الگ ہو جانا صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ اتحاد کی اندرونی کمزوریوں، ذاتی مفاد پر مبنی سیاست اور غیرجمہوری فیصلوں کا کھلا اظہار ہے۔جے ایم ایم نے جب اعلان کیا کہ وہ بہار کے انتخابات نہیں لڑےگا تو سیاسی منظرنامے پر ایک سوال گونج اٹھا: آخر وہ کون سا دباؤ یا ناانصافی کا احساس تھا، جس نے ایک اتحادی جماعت کو آخری لمحے میں پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا؟ جے ایم ایم کے رہنماؤں کے مطابق انہیں ’’درکنار‘‘ کیا گیا، ان کی بات سنی نہیں گئی، اور جن نشستوں پر وہ برسوں سے اپنی موجودگی رکھتے تھے، وہاں بھی راشٹریہ جنتا دل نے اپنی مرضی مسلط کر دی۔ سیاست میں یہ رویہ عموماً اس وقت پیدا ہوتا ہے جب قیادت خود کو مرکزِ کائنات سمجھنے لگتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جھارکھنڈ کے وزیر اور جے ایم ایم کے رہنماؤں نے کھلے عام راشٹریہ جنتا دل پر الزام لگایا ہےکہ 2019 میں جب جے ایم ایم نے جھارکھنڈ میں آر جے ڈی اور کانگریس کو اپنی نشستیں دی تھیں، تب یہ ’’اتحاد‘‘  شکر گزار تھا، مگر آج بہار میں وہی جماعت اس کے ساتھ ’’سیاسی کھیل‘‘ کھیل رہی ہے۔ اس طنزیہ حقیقت نے نہ صرف مہاگٹھ بندھن کی اخلاقی بنیادوں کو کمزور کیا ہے بلکہ کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں کے درمیان بھی عدم اعتماد کی فضا کو گہرا کر دیا ہے۔اور صورتحال یہاں تک بگڑ چکی ہے کہ بہار میں  تقیرباََ13  نشستوں پر خود مہاگٹھ بندھن کے امیدوار ایک دوسرے کے خلاف میدان میں ہیں، کہیں آر جے ڈی بمقابلہ کانگریس، تو کہیں سی پی آئی بمقابلہ وی آئی پی۔ اس انتشار کو’’فرینڈلی فائٹ ‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے، لیکن یہ دوستی نہیں بلکہ درکتی دیواروں کی وہ آواز ہے جو اندر سے پوری عمارت کو ہلا رہی ہے۔دوسری جانب جے ڈی یو نے موقع غنیمت جان کر آر جے ڈی پر طنز کے تیر برسانے شروع کر دئے  ہیں۔ پارٹی کے ترجمان راجیو رنجن کا کہنا ہے کہ ’’جہاں جے ایم ایم نے جھارکھنڈ میں آر جے ڈی کو عزت دی، وہاں آر جے ڈی نے انہیں بہار میں رسوا کیا ہے۔‘‘ سیاست میں شائستگی اور توازن کا یہی فقدان کسی بھی اتحاد کو منفی انجام کی طرف بہا لے جانے کے لئے کافی ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ بحران محض نشستوں کی تقسیم کا نہیں بلکہ قیادت کے اخلاقی زوال کا نتیجہ ہے۔ لالو پرساد یادو کے زمانے میں آر جے ڈی میں ایک خاص سیاسی فراست تھی۔ اختلافات کو بات چیت سے حل کرنے کا کلچر تھا۔ لیکن تیجسوی یادو کے دور میں یہ جماعت شخصی انا، جارحانہ لہجے اور اقتدار کے حصول کی بےتابی کا شکار ہو چکی ہے۔ یہ المیہ صرف آر جے ڈی کا نہیں بلکہ اس سے متاثر کم و بیش پورا مہاگٹھ بندھن ہے، کیونکہ قیادت کے اس انداز نے اتحادیوں میں اعتماد کے بجائے بلا کی بدگمانی پیدا کر دی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا 2025 کا انتخابی میدان اس بکھرے اتحاد کے لئے کسی نئی امید کی گنجائش رکھتا ہے؟  تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو بہار میں مہاگٹھ بندھن کی شکست صرف سیاسی نہیں بلکہ نظریاتی بھی ہوگی۔ کیونکہ ریاست کے امن و انصاف پسند عوام نے اس اتحاد کو ’’سماجی انصاف‘‘ اور ’’فرقہ وارانہ ہم آہنگی‘‘ کے نام پر ووٹ دیا تھا، نہ کہ اقتدار کے لالچ میں ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے لئے۔ چنانچہ یہ حقیقت ہےکہ مہاگٹھ بندھن آج ایک دو راہے پر کھڑا ہے، جہاں ایک طرف اصولوں کی راہ ہے، جو قربانی اور تحمل مانگتی ہے اور دوسری طرف اقتدار کی وہ راہ ہے، جو وقتی فائدے کے سراب کے پیچھے دوڑ تے ہوئے تباہی کی طرف بڑھ جانے کی ترغیب دے رہی ہے۔ لگتا ہے تیجسوی یادو نے دوسری راہ چن لی ہے۔ اگر یہ روش برقرار رہی، تو تاریخ انہیں اُس سماجوادی  سیاست کے زوال کا ذمہ دار ضرور ٹھہرائے گی ،جو کبھی ایک بڑے خواب کے ساتھ شروع ہوئی تھی، مگر اب وہ محض اقتدار کی ہوس میں ٹوٹ بھوٹ کر بکھرتی ہوئی نظر آنے لگی ہے۔