تاثیر 24 اکتوبر ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر امت شاہ نے بہار اسمبلی انتخابات سے عوام کو جذباتی طور پر جوڑنے کی ذمہ داری خود اپنے ہاتھوں میں لے لی ہے۔ان رہنماؤں کی حالیہ انتخابی ریلیاں،خاص طور پر کل برو ز جمعہ سمستی پور و بیگوسرائے میں منعقد پی ایم کی ریلیوں اور سیوان اور بکسر میں منعقد وزیر داخلہ کی ریلیوں نے بہار کی سیاسی فضا کو مزید گرم کر دیا ہے۔ انھوں نے مہاگٹھ بندھن کے خلاف سخت زبان اختیار کیا ساتھ ہی ’’جنگل راج‘‘ کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے مہاگٹھ بندھن کی داخلی دراڑوں کو نشانہ بنایا۔
مذکورہ دونوں سینئر رہنماؤں نے اپنی تقاریر کے ذریعہ این ڈی اے کے اس پیغام کو واضح کر دیا ہے کہ ریاست کی ترقی، نظم و ضبط اور پچھلے مبینہ ’’جنگل راج ‘‘ کے دور کا احتساب ہی ان اہم چناوہ ایجنڈہ ہے۔ مودی اور شاہ نے پچھلے دو دہائیوں کی نتیش حکومت کے گڈگورننس کا ذکر کرتے ہوئے یہ وعدہ کیا کہ دوبارہ اقتدار میں آنے پر بہار کو تیز رفتاری سے آگے بڑھایا جائے گا۔ ان کا یہ بھی مؤقف ہے کہ مہاگٹھ بندھن اندرونی اختلافات اور سیٹوں کی کشمکش کی وجہ سے عوامی کشش کھو چکا ہے۔ اسی بیانیے کو وہ اپنے انتخابی پرو گرام میں پوری شدت سے استعمال کر رہے ہیں۔
دوسری جانب مہاگٹھ بندھن کی خامیاں بھی عیاں ہیں۔ اندرونی گفت و شنید کی کمزوری، بعض اوقات کھلے مقابلے کی صورتِ حال (فرینڈلی فائٹ) اور سیٹوں کے تعین میں التوا نے عوامی تاثر پر اثر ڈالا ہے۔ مگر یہ بھی درست ہے کہ اپوزیشن کے پاس بے روزگاری، مہنگائی، نوجوانوں کی ہجرت اور مقامی ترقی کے مسائل پر ٹھوس موقف موجود ہے، جو خاص طور پر نوجوان اور مزدور طبقے میں ان دنوں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ کانگریس اور دیگر اتحادی اپنے اندر کی کمزوری کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالیہ چند مشترکہ اعلانات سے اتحاد کو بچانے کی سنجیدہ کوششیں بھی نظر آ نے لگی ہیں۔
اس درمیان سیاسی تجزیہ کاروں میں اس بات پر بھی غور کیا جا رہا ہے آیا انتخابی محاذ پر چلنے والی زبانی لڑائی اور شخصی حملے ریاست کے حقیقی مسائل کو چھپا تو نہیں رہے ہیں؟ ان کا کہنا ہے کہ جب حکومت کے نمائندے ‘‘جنگل راج’’ جیسی اصطلاحات دہراتے ہیں تو یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ماضی کی غلطیوں کا احتساب آئینی اور عدالتی راستوں سے ہونا چاہیے، نہ کہ محض انتخابی تقریروں کی نفسیاتی جنگ سے۔ اسی طرح اپوزیشن کو بھی اپنے اندرونی اختلافات کو عوامی مفادات کے سامنے ترجیح نہ دینا چاہیے؛ ورنہ جتنا نقصان وہ حکومت کے بیانیے کو پہنچا رہے ہیں، اتنا ہی ووٹرز کنفیوژن کا شکار ہو رہے ہیں۔حقیقت ہے کہ دونوں جانب کے بیانیے میں سچائی اور مبالغے ایک دوسرے میں خلط ملط ہو گئے ہیں۔ این ڈی اے کا ترقیاتی دعویٰ عوام کے لئے معنی ضرور رکھتا ہے، مگر یہ دیکھنا ہوگا کہ ترقی کے دعوؤں اور وعدوں کی وابستگی ریاست کے عام طبقات سے کس حد تک ہے۔یا پھر ’’جنگل راج‘‘ سے آج کی نسل کس حد تک متاثر ہو رہی ہے ؟ جبکہ اپوزیشن کے تنقیدی نکات، نوکری، تعلیمی مواقع اور بنیادی ڈھانچے کی صورتحال، ووٹر کے روزمرہ تجربات سے جڑے ہوئے ہیں، اور یہی نکات در اصل انتخابی فیصلہ ساز ہوسکتے ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بہار میں جیت کا فارمولہ صرف جذباتی تقاریر یا مخالفین کو بدنام کرنے سے طے نہیں ہو پائے گا؛ یہ اُس جماعت یا اتحاد کے حق میں جائے گا ،جو عوامی مسائل کو واضح، قابلِ عمل اور قابلِ تسلیم حکمتِ عملی کے طور پر پیش کرے گا۔
عوام کی امیدیں آج فردِ واحد کے احتساب سے بڑھ کر ہیں۔آج کی تاریخ میں روزگار، صحت، تعلیم اور روزمرہ زندگی میں شفافیت اور انصاف کے تقاضے سب کے دل و دماغ میں ہیں۔ انتخابی مباحثہ کا معیار تبھی بلند ہوگا، جب پالیسیز پر مبنی بحثیں اور عملی منصوبے تقریری تاثر کو پیچھے چھوڑ کر سامنے آئیں گے۔آج کے ووٹرز محض شعلہ بیان تقاریر کے جال میں پھنسنے والے نہیں ہیں۔وہ دونوں اطراف کے بیانات کو جانچنے اوران کے مقاصد کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی سب کے ٹریک رکارڈ پر بھی ان کے دل دماغ میں ہے۔بہار کا ووٹر تجربہ کار اور محتاط رہا ہے،یہی وجہ ہے کہ ریلیوں کی بلند بانگ صدائیں نتیجہ تک پہنچنے والی واحد کرن نہیں بن سکتیں۔ انتخابات میں احتساب، شفافیت اور عوامی بہبود کو ہی انتخابی پیمانے پر جگہ مل سکتی ہے۔باقی باتیں صرف باتیں ہیں۔ آج کے ووٹرز ان باتوں میں الجھنے والے نہیں ہیں۔
**************

