محتاط فیصلے کا منتظر ہے بہار

تاثیر 2 نومبر ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

بہار اسمبلی انتخابات 2025 اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں۔اسی درمیان انتخابی ماحول ایک بار پھر پرانی یادوں، پرانے چہروں اور پرانے زخموں سے لبریز دکھائی دینے لگا ہے۔مکامہ اسمبلی حلقہ ، جو ہمیشہ سے بہار کی سیاست کا، طاقت اور تصادم کا مرکز رہا ہے، اس بار بھی خبروں کے مرکز میں ہے۔ راجد کے پرانے کارکن اور جن سوراج پارٹی کے حمایتی دُلار چند یادو کے قتل اور جے ڈی یو امیدوار اننت سنگھ کی گرفتاری نے ریاست کی انتخابی فضا کو غیر معمولی حد تک حساس بنا دیا ہے۔ ایسے وقت میں جب ملک بھر میں انتخابی شفافیت اور جمہوری اقدار کی بات ہو رہی ہے، بہار کے چناوی ميدان میں ذات پات، طاقت اور انتقام کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔
دریں اثنا مکامہ قتل کانڈ کے پس منظر میں چیف الیکشن کمشنرگیانیش کمار نے کل اپنے ایک بیان میں واضح کیا کہ’’ بہار اسمبلی انتخابات کے دوران کسی بھی قسم کے تشدد یا قانون شکنی کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔ عوام بلا خوف و خطر انتخابی عمل میں بھرپور شرکت کریں اور اپنے جمہوری حقِ رائے دہی کا استعمال کریں۔ الیکشن کمیشن کے نزدیک نہ کوئی حکومت ہے اور نہ کوئی اپوزیشن، بلکہ سبھی جماعتیں برابر ہیں۔کمیشن تشدد کے معاملے میں زیرو ٹالرینس کی پالیسی پر قائم ہے۔یہ کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ ہر ووٹر کو پُرامن اور شفاف ماحول میں ووٹ ڈالنے کا موقع ملے۔ اس مقصد کے لئے ریاست کے تمام 243 ریٹرننگ آفیسر، مبصرین، ضلع مجسٹریٹ، ایس پی، ایس ایس پی اور پولیس افسران مکمل طور پر تیار ہیں۔ بہار اسمبلی انتخابات نہ صرف شفاف اور پُرسکون ہوں گے بلکہ اپنی شفافیت اور منظم طرزِ عمل کی بدولت یہ پورے ملک ہی نہیں بلکہ دنیا کے لئے بھی ایک مثال قائم کریں گے۔‘‘ قابلِ ذکر ہے کہ مکامہ میں جے ڈی یو امیدوار اننت سنگھ کی گرفتاری کے بعد انتخابی ماحول میں ہلچل مچ گئی ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس قتل کے بعد فوری کارروائی کرتے ہوئے حلقے میں تعینات کئی اعلیٰ افسروں کا تبادلہ کر دیا ہے اور ریاستی ڈی جی پی سے مفصل رپورٹ طلب کی ہے۔
مکامہ کی سیاست ہمیشہ ’’باہوبلی کلچر‘‘ سے جانی جاتی رہی ہے۔ 2000 کے بعد سے یہ سیٹ دو دبنگوںاننت سنگھ اور سورج بھان سنگھ، کے درمیان مقابلے کا استعارہ بن چکی ہے۔ 2025 میں اس سیٹ پر ایک بار پھر آمنے سامنے کی ٹکر ہے، جہاں جے ڈی یو کے امیدوار اننت سنگھ کا مقابلہ آر جے ڈی امیدوار وینا دیوی ( سورج بھان سنگھ کی اہلیہ) سے ہے۔ دُلار چند یادو کی ہلاکت نے اس مقابلے کو صرف سیاسی نہیں بلکہ ’’اگڑوں بمقابلہ پچھڑوں‘‘ کے خانے میں بدل دیا ہے۔ اس قتل کے بعد یادو، کوئری، اور دیگر پچھڑی برادریوں میں ہمدردی کی لہر ہے، تو دوسری طرف بھومیہار طبقہ اپنے ’’چھوٹے سرکار‘‘ کے دفاع میں متحد دکھائی دے رہا ہے۔
یہ سچ ہے کہ بہار کی سیاست نے ترقی، روزگار،تعلیم اور اس طرح کے دیگر کئی وعدے سنے ہیں، مگر زمینی سیاست اب بھی ذات پات کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں بھی اگر انتخابات خون ریزی،ذات پات اور دھارمک نعروں کے سائے میں ہونگے تو یقیناََ یہ جمہوریت کے لئے لمحۂ فکریہ ہے۔مکامہ کے کچھ لوگ اننت سنگھ کو اپنا ہیرو مانتے ہیں، وہیں ان کے مخالفین انہیں خوف کی علامت کہتے ہیں۔ عدالت کی طرف سے بری کیے جانے کے باوجود، ایک رپورٹ کے مطابق، ان کے خلاف تقریباََ 28 فوجداری مقدمات ابھی بھی زیر غور ہیں۔اننت سنگھ کی حالیہ گرفتاری کو ان کے حامی ’’سیاسی سازش‘‘  قرار دے رہے ہیں، جب کہ مقتول کے اہل خانہ انصاف کے منتظر ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ بہار کے کئی انتخابی حلقے آج بھی ’’سیاسی جاگیریں‘‘ بنے ہوئے ہیں، جہاں عوامی خدمت سے زیادہ خاندانی وراثت اور اثر و رسوخ کا سکہ چلتا ہے۔مکامہ اس کی واضح مثال ہے، جہاں ترقیاتی ایشوز کی جگہ خوف، دہشت ، وفاداری اورانتقام کی سیاست نے لے لی ہے۔اس دوران انتخابی کمیشن کی جانب سے شفاف انتخابات کے دعوے اپنی جگہ درست ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا بہار کے ووٹرز واقعی اس تشدد اور ذات پرستی کے دائرے سے باہر نکل پائیں گے؟ کیا دُلار چند یادو جیسے واقعات کو محض انتخابی حادثہ کہہ کر بھلا دیا جائے گا، یا یہ بہار کی سیاسی ذہنیت پر ایک گہرا داغ بن جائے گا؟
آج بہار کو ضرورت ہے ایک ایسی قیادت کی جو تشدد کے بجائے تحمل کی اور ذات پات کے بجائے قابلیت کی سیاست کرے۔ عوام کو ہی یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ ماضی کے خونچکاں باب کو دہرانا چاہتے ہیں یا ایک نئے عہد کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔مکامہ کے اس انتخاب میں صرف دو امیدوار نہیں لڑ رہے، بلکہ دو ’’باہو بلی ‘‘ آمنے سامنے ہیں۔ان دو طاقتوں کے درمیان کچھ اور امیدوار میدان میں ہیں، جو جمہوری شعور کے ذریعے انتخاب جیتنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اگر بہار کے عوام نے شعور اور احتیاط سے فیصلہ کیا، تو یہ انتخاب ریاست کی سیاسی تہذیب میں ایک نئے باب کا آغاز بن سکتا ہے۔ ورنہ مکامہ ایک بار پھر محض ایک’’ خون آلود کہانی‘‘ بن کر رہ جائے گا، جو عموماََ ہر انتخاب کے درمیان دہرائی جاتی ہے۔
********************