مہم کی حمایت وقت کا تقاضہ

تاثیر  ۱۰  ستمبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

مرکزی حکومت کے مجوز و وقف ترمیمی بل، 2024 کے خلاف ملی تنظیموں کی جانب سے ملک گیر سطح پر شعور بیداری مہم چلائی جا رہی ہے تاکہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس بل کی مخالفت میں وقت مقررہ کے پہلے عرضداشت کی شکل میں زیادہ سے زیادہ آراء اور تجاویز پہنچ سکیں۔ ملی تنظیموں کی کوشش ہے کہ ہر سطح پر اور ملک کے گوشے گوشے سے ترمیمی بل کی تمام 40 ترمیمات کے خلاف ٹھوس، مدلل تجاویز جے پی سی کو اتنی بڑی تعداد میں پہنچیں کہ جے پی سی ہمار ے موقف کو نظر انداز نہیں کر سکے ۔یہ بات سب کو معلوم ہے کہ مرکزی حکومت نے گزشتہ 8 اگست کو 44 تبدیلیوں کے ساتھ 40 صفحات پر مشتمل وقف ترمیمی بل (2024) پارلیامنٹ میں پیش کیا تھا۔ سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے سربراہ اکھلیش یادو کی قیادت میں اپوزیشن کی زور دار مخالفت کی وجہ سے، بر سر اقتدار جماعتوں کی پوری کوشش کے باوجودبل ایوان سے منظو ر نہیں ہو سکا تھا اور تفصیلی غور و خوض کے لئے اسے مشترکہ پارلیامانی کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ بی جے پی ایم پی جگدمبیکا پال کی سربراہی میں تشکیل 31 رکنی جے پی سی کی ایما پر گزشتہ 30اگست کولوک سبھا سکریٹریٹ، نئی دہلی کی طرف سے ایک پریس کمیونیک جاری کیا گیا تھا۔ پریس کمیونک میں کہا گیا تھا کہ وقف (ترمیمی) بل، 2024جانچ اور رپورٹ کے لیے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا ہے۔ مجوزہ بل کے وسیع تر مضمرات پر غور کرتے ہوئے شری جگدمبیکا پال کی سربراہی میں کمیٹی نے عوام اور این جی اوز/ماہرین/اسٹیک ہولڈرز اور اداروں سے خاص طور پر آراء یا تجاویز پر مشتمل یاد داشتوں کو مدعو کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو لوگ کمیٹی کو تحریری تجاویز پیش کرنا چاہتے ہیں وہ انگریزی یا ہندی میں دو کاپیاں 15 دنوں کے اندر بھیج سکتے ہیں۔اس پریس کمیونک کے بعد سے ملی تنظیموں کی جانب شعور بیداری مہم چلائی جا رہی ہے۔ بل کی مخالفت میں رائے دینے کے لئے، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف سےایک کیوآر کوڈ جاری کیا گیا ہے۔ ملک کے حساس مسلمان اس کو اسکین کرکے بڑی تعدا میں ترمیمی بل کی مخالفت میں اپنی عرضداشت جےپی سی کوبھیج رہے ہیں۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذریعہ جاری کیو آر کوڈ کو ماہرین کی ٹیم نے ترتیب دیا ہے۔ ٹیکنکل ماہرین مستقل چوبیس گھنٹے اس کی نگرانی بھی کررہے ہیں۔ تاکہ کسی بھی سطح پر ا س کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ یا اسے کوئی ہیک نہیں کر سکے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ کوڈ ہر طرح کے سائبر حملوں سے محفوظ ہے۔ پریس کمیونیک کے مطابق جے پی سی کے پاس عرضداشت بھیجنے کی آخری تاریخ 13 ستمبر، بروز جمعہ ہے۔

اِدھر جے پی سی کے سربراہ جگدمبیکا پال کا کہنا ہے کہ اِس بل کو پیش کرنے کا حکومت کا ایک خاص مقصد یہ ہے کہ وقف کی املاک سے پسماندہ مسلمانوں اور خواتین کو فائدہ ہو۔ کمیٹی سبھی 44 ترامیم پر تبادلۂ خیال کرے گی اور پارلیمنٹ کے اگلے اجلاس تک ایک اچھا اور جامع قانون وضع کرے گی۔ وقف ترمیمی بل، 2024 کا مقصد خامیوں کو دور کرنا اور ایڈمنسٹریشن اور وقف املاک کے بندوبست کو بہتر بنانا ہے۔ بل میں مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈس کی تشکیل وسیع بنیادوں پر کئے جانے اور مسلم خواتین اور غیر مسلم کی نمائندگی کو یقینی بنائے جانے کی بھی گنجائش ہے۔دوسری جانب بھارتیہ جنتا پارٹی ، اقلیتی مورچہ کی جانب سے بھی مسلم کمیونٹی سے رابطہ قائم کرنے اور ترمیمی ایکٹ کی حمایت میں تجاویز جمع کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کا م کے لئے تشکیل پذیر سات رکنی ٹیم میںاتراکھنڈ وقف بورڈ کے چیئر مین شاداب شمس ، مدھیہ پردیش وقف بورڈ کے چیئر مین سنور پٹیل، ہریانہ وقف بورڈ کے ایڈ منسٹریٹر چودھری ذاکر حسین، گجرات وقف بورڈ کے چیئر مین محسن لو کھنڈ والا، بی جے پی اقلیتی مورچہ کے قومی ایگز یکٹو ممبر مولانا حبیب حیدر ، بی جے پی اقلیتی مورچہ کے نیشنل ایگزیکٹو ممبر ناصر حسین اور ہماچل پردیش وقف بورڈ کے سابق چیئر مین راج بالی شامل ہیں۔ بی جے پی اقلیتی مورچہ کے قومی صدر جمال صدیقی کا دعویٰ ہے کہ بی جے پی وقف املاک کو ناجائز قبضوں سے آزاد کرانے اور غریب مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ صدیقی کا الزام ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں صرف بی جے پی کی مخالفت کی سیاست کر رہی ہیں۔

حالانکہ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر یہ بل پاس ہو جاتا تو اس کا سب سے زیادہ اثر اتر پردیش پر پڑے گا۔ یوپی میں سنی سینٹرل وقف بورڈ کے پاس سب سے زیادہ 2,10,239 اور شیعہ سینٹرل وقف بورڈ کے پاس 15,386 جائیدادیں ہیں۔ویسے بھارت میں وقف بورڈ کے پاس8 لاکھ، 72 ہزار ایکڑ سے سے ز یادہ وقف جائدادیں ہیں۔ بی جے پی حامی چینلوں کے ذریعے مشتہر کیا جاتا ہے کہ ان جائیدادوں کا مالک وقف بورڈ نہیں ہے بلکہ بورڈ صرف ان کی نگرانی کرتا ہے۔وقف کا مطلب ایک بندوبستی ہے، جس کے توسط سے مسلمان بیواؤں، یتیموں، اسکولوں، اسپتالوں، مدرسوں وغیرہ کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی زمین، منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادعطیہ کرتے ہیں۔ پورے ملک میں 32 وقف بورڈ ہیں۔وقف ایکٹ اور وقف املاک کو شریعت ایپلیکیشن ایکٹ 1937 کے توسط سے آئین ہند کے ذریعے تحفظ حاصل ہے۔ 1947 کے بعد 1954 میں وقف ایکٹ آیا، جس میں 1995 میں ترمیم کی گئی اور بعد میں 2013 میں دوبارہ ترمیم کی گئی۔ یہ سب کچھ کانگریس کی قیادت والی حکومت نے کیاتھا، جس نے اسے مزید بااختیار بنا یا تھا۔ مجوزہ ترمیمی بل آئین ہند کے آرٹیکل 12 سے 35 میں مضمربنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ وقف ترمیمی بل (2024) کے تحت حکومت ریاستی بورڈوں پر غیر مسلموں کو نامزد کرنا چاہتی ہے، وقف ٹریبونل اتھارٹی کی جگہ ضلع کلکٹر کو ایک ثالث کے طور پرمقرر کرنا چاہتی ہے، جو اس بات کی تحقیقات اور تصدیق کرے گا کہ کیا کوئی جائیداد وقف جائیداد ہے یا سرکاری زمین ہے۔اس بل کی دفعات آرٹیکل 26 سے بالکل ہی مطابقت نہیں رکھتی ہیں، جو واضح طور پر مسلمانوں کو اجازت دیتی ہے ،(اے) مذہبی اور خیراتی مقاصد کے لیے اداروں کے قیام اور ان کے رکھ رکھاؤ کی، (بی) مذہبی امور میں اپنے خود کے معاملوں کو منظم کرنے کی ،(سی) منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی ملکیت اورقبضہ حاصل کرنے کی اور (ڈی) قانون کے مطابق جائیدادکو منظم کرنے کی، لیکن وقف ترمیمی بل ، 2024 کے ذریعہ عین ممکن ہے کہ وقف سے متعلق جائیدادوں ملکیت کو بھی غیر قانونی قرار دے دیا جائے۔چنانچہ یہ مانا جا رہا ہے کہ ترمیمی بل اور اس کے مضمرات کسی بھی طرح سے ملک کے جمہوری اقدار پر مبنی نہیں ہیں۔ لہٰذا، جمہوری انداز سے اس کی پر زور مخالفت کرنے کی مہم ملی تنظیموں کے ذریعہ چلائی جا رہی ہے۔اس مہم کی بھرپور حمایت وقت کا تقاضہ ہے۔
*************