’’انڈیا‘‘ کا وجود اب صرف کاغذ پر رہ گیا ہے ؟

تاثیر  11  جنوری ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

این ڈی اے کے مقابلے میں 17 ماہ پہلے تشکیل پذیر ’’انڈیا‘‘ بلاک کا وجود کیا محض اب کاغذ پر ہی رہ گیا ہے ؟ یہ وہ سوال ہے ، جو دہلی اسمبلی انتخابات کے مد نظر اِن دنوں پورے ملک میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ دراصل مئی 2024 میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات کے نتائج نے اپوزیشن اتحاد کے حوصلے بڑھا دیے تھے۔ تب کانگریس بہت خوش تھی۔ پچھلے دس سالوں میں پہلی بار راہل گاندھی کی قیادت کامیاب ہوئی تھی۔ 2014 اور 2019 میں کانگریس کو لوک سبھا میں اتنی سیٹیں بھی نہیں ملی تھیں کہ وہ اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کر سکے۔ تاہم 2024 میں اسے 99 سیٹیں ملیں اور اس پر سے یہ داغ مٹ گیا کہ کانگریس اب اہم اپوزیشن پارٹی بننے کے قابل بھی نہیں رہی۔ لیکن کانگریس کی یہ خوش فہمی دیر تک قائم نہیں رہ سکی ۔ ہریانہ اور مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات نے ایک بار پھر اسے آئینہ دکھا دیا۔ کانگریس یہ بھول گئی تھی کہ لوک سبھا میں 99سیٹوں پر کانگریس کی جیت کے پیچھے ایس پی سربراہ اکھلیش یادو کے سیاسی داؤ کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔

جب وزیر اعظم نریندر مودی نے 31 مارچ 2024 کو میرٹھ میں اپنی انتخابی مہم شروع کی تو انہوں نے بی جے پی کے لیے 400 پار کا نعرہ دیا تھا۔ اس کے بعد 14 اپریل کو ایودھیا سے بی جے پی کے رکن لوک سبھا للو سنگھ نے کہا کہ 400 کو عبور کرنے کے بعد ہم آئین میں ترمیم بھی کر سکیں گے۔ کیونکہ 272 سیٹیں حاصل کر کے حکومت بنتی ہے، لیکن اگر 400 سیٹیں مل جائیں تو آئین میں تبدیلی بھی ممکن ہے۔ للو سنگھ کا مذکورہ بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔ اسی وقت، اتر پردیش کے سابق وزیر اعلی اور ایس پی سپریمو اکھلیش یادو نے ٹویٹ کیا کہ پی ڈی اے یعنی پسماندہ، دلت اور اقلیتی ووٹر بی جے پی کو شکست دیں گے۔ اکھلیش کا یہ بیان ’’انڈیا‘‘ بلاک سے وابستہ جماعتوں کے لیے لائف لائن ثابت ہوا۔ چنانچہ لوک سبھا چناؤ میں’’ انڈیا‘‘ بلاک کو امید سے زیادہ کامیابی ملی۔مگر اس کامیابی کے بعد کانگریس اپنے اتحادیوں کے ساتھ بہتر رویہ نہیں اپنا سکی۔آج نتیجہ یہ ہے کہ دہلی اسمبلی انتخابات میںعام آدمی پارٹی اور کانگریس دونوں الگ الگ چناوی میدان میں ہیںاورایس پی اور ترنمول کانگریس نے اروند کیجریوال کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ بھلے ہی دہلی میں ایس پی یا ترنمول کا کوئی ووٹ بیس نہ ہو، لیکن مشرقی دہلی میں وسطی اور مشرقی اتر پردیش کے لوگوں کی اچھی خاصی تعدادہے۔ اسی طرح چترنجن پارک میں بہت زیادہ بنگالی ووٹر ہیں۔ بہار میں تیجسوی یادو بھی اس اتحاد کو کنارہ کش ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ وہ بھی یہ کہنے بھی لگے ہیں کہ ’’انڈیا‘‘ اتحاد صرف لوک سبھا انتخابات کے لیے تھا۔اِدھرسننے میں آ رہا ہے کہ ادھو گروپ کی شیوسینا بھی عام آدمی کے ساتھ ہے۔گرچہ ان سب پارٹیوں کا دہلی میں کوئی خاص ووٹ بینک نہیں ہے، لیکن ان کے کیجریوال کے ساتھ آنے سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ ’’انڈیا‘‘ بلاک کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔اور اب تو اروند کیجریوال بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ کانگریس ہمارے سامنے کہیں نہیں ہے۔ وہ صرف بی جے پی کو اپنا حریف سمجھتے ہیں۔ حالات کے مد نظر کانگریس کے رہنما اور مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ پرتھوی راج چوان تو پہلے سے ہی یہ کہہ رہے ہیں کہ دہلی انتخابات صرف اروند کیجریوال ہی جیتیں گے۔

’’انڈیا‘‘ اتحاد لوک سبھا انتخابات سے تھوڑا پہلے شروع ہوا تھا۔ اس کے بعد ہریانہ انتخابات کے وقت سے ہی ’’انڈیا‘‘ اتحاد میں ٹوٹ پھوٹ کے آثار شروع ہو گئے تھے۔ بی جے پی کو ہریانہ اور مہاراشٹر میں بہت اچھی کامیابی ملی۔ ’’انڈیا‘‘ بلاک سے وابستہ جماعتیں کانگریس کے بارے میں یہی رائے رکھتی ہیں کہ جہاں کانگریس طاقتور ہے وہ اپنے اتحادیوں کو نظر انداز کرتی ہے۔ویسے جب انڈیا الائنس بنا تو اس میں 28 سیاسی جماعتوں کی متفقہ رضامندی تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ حلیف جماعتیں اس سے الگ ہونےلگیں۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے صرف تین میٹنگوں کے بعد اس سے کنارہ کش ہو کر بی جے پی کے حلیف بن گئے۔ اس کے بعد عام آدمی پارٹی اور ٹی ایم سی نے بھی یکے با دیگرے کانگریس سے رشتہ منقطع کر لیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ کانگریس لیڈروں کے متکبرانہ بیانات تھے۔ کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے اور پارٹی کے سپریم لیڈر راہل گاندھی کا رویہ بھی ’’انڈیا‘‘ بلاک کی حلیف جماعتوں کے ساتھ در پردہ ہمیشہ معاندانہ ہی رہا۔ابھی دہلی اسمبلی انتخابات کے حوالے سے بات کی جائے تو کانگریس نے سندیپ دکشت کو نئی دہلی سے اروند کیجریوال کے خلاف میدان میں اتارا ہے اور بی جے پی نے سابق وزیر اعلی صاحب سنگھ ورما کے بیٹے پرویش ورما کو میدان میں اتارا ہے۔ سندیپ دکشت الزام لگا رہے ہیں کہ اروند کیجریوال بی جے پی کے ایجنٹ ہیں۔ دوسری طرف عام آدمی پارٹی کانگریس اور سندیپ دکشت پر بھی یہی الزامات لگا رہی ہے۔دوسری جانب بی جے پی اپنے چھوٹے اتحادیوں کا بھی پورا خیال رکھتی ہے۔ چراغ پاسوان، جن کی چھ سیٹیں ہیں، کو بھی کابینہ میں جگہ دی گئی ہے۔یہاں تک کہ ایک سیٹ لیکر پارلیمنٹ پہنچنے والے جیتن رام مانجھی کو بھی بی جے پی نے وزارت کی کرسی پر بٹھایا ہے۔

یہ بات صحیح ہے کہ کانگریس کے پاس لوک سبھا سیٹیں کم ہیں اور اس کی حکومت ملک کی محض تین ریاستوں میں ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ آج بھی ملک میں ہر جگہ کانگریس کے ووٹر زہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر ریاست اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں علاقائی پارٹیوں کے درمیان بنیادی ٹکراؤ کانگریس سے ہی ہے۔ لوک سبھا میں کانگریس کے ساتھ اتحاد ہوسکتا ہے، لیکن اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے لیے اہم چیلنج یہی علاقائی پارٹیاں ہیں۔ کانگریس کے بڑ بولے قائدین اپنی طرف سے انکساری کا مظاہرہ کرنے کو تیار نہیں ہیں، اس لیے قومی سطح پر کانگریس کی قیادت میں بننے والا کوئی بھی اتحاد پائیدار نہیں ہے۔ تاہم، 2004 سے 2014 تک کانگریس کی قیادت میں بننے والا متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) طویل عرصے تک قائم رہا۔ لیکن’’انڈیا ‘‘ اتحاد ، جس کی تشکیل جولائی 2023 میں ہوئی تھی، اس میں چھ ماہ کے اندر ٹوٹنا پھوٹنا شروع ہو گیا تھا۔ اور اب تو چاروں طرف یہی بات کہنے اور سننے کو مل رہی ہے کہ ’’انڈیا‘‘ اتحاد کا وجود اب صرف کاغذ پر ہی رہ گیا ہے۔