یمن کی جیل میں بندبھارتی نرس نِمیشا پریا کی مدد کے لئے ایران نے ہاتھ بڑھائے

تاثیر  07  جنوری ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

بطور قصاص موٹی رقم جمع کرنے اور سفارتی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت

کیرالہ کے پلکاڈ ضلع کی رہنے والی بھارتی نرس نمیشا پریا قتل کے الزام میں 2017 سے یمن کی جیل میں قیدہیں۔ انھیں وہاں موت کی سزا سنائی گئی ہے۔ بھارت کی وزارت خارجہ ان کی مدد کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان کی سزا کم ہو سکتی ہے یا معاف ہو سکتی ہے بشرطیکہ وہ ’’بلڈ منی‘‘ ، جسے عام اصطلاح میں ’’قصاس‘‘، ’’خون بہا ‘‘ یا  ’’دیۃ ‘‘  بھی کہا جاتا ہے، مقتول کے اہل خانہ کو ادا کر دیں۔اسلامی قانون کے مطابق، مقتول کے خاندان کو قتل کے عوض متعینہ رقم دیکر مجرم کو معاف کردینے کا التزام ہے۔ یہ قانون قتل، جسمانی نقصان یا جائیداد کو نقصان پہنچانے جیسے جرائم پر لاگو ہوتا ہے۔ بلڈ منی کی رقم جرم کی نوعیت اور متعلقہ ملک کے قانون پر منحصر ہے۔مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے تقریباً 20 ممالک میں یہ روایت آج بھی بر قرارہے۔ اسلامی علماء کے مطابق، بلڈ منی کا مقصد متاثرہ خاندان کو مالی مدد فراہم کرنا اور انصاف کا متبادل نظام پیش کرنا ہے۔ تاہم، اس کا استعمال منصفانہ اور اخلاقی طور پر کیا جانا بھی ضروری ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق 36 سالہ نمیشا پریا نرسنگ اسکول مکمل کرنے کے بعد،2008 میں ملازمت کی تلاش میں کیرالہ سے یمن چلی گئیں۔، جہاں انہیں سنا کے ایک سرکاری اسپتال میں ملازمت ملی۔ 2011 میں انہوں نے نمیش تھامس نام کے ایک شخص سے شادی کی۔ 2012 میں ان کی ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ یمن میں نمیشا کے شوہر نمیش تھامس کو ملازمت نہیں مل سکی۔ چنانچہ مالی مشکلات کی وجہ سے ان کے وہ بھارت واپس آگئے، جبکہ نمیشا نے یمن میں رہ کر ایک کلینک کھولنے کا فیصلہ کیا۔یمن کے قانون کے مطابق، کسی غیر ملکی کو کاروبار شروع کرنے کے لیے ایک مقامی شراکت دار کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک مقامی شخص، عبداللہ المحندی، نے شراکت داری کی رضامندی دی۔ نمیشا نے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے 50 لاکھ روپئے جمع کرکے اپنی کلینک شروع کی۔تاہم المحندی نے مبینہ طور پر پریا کے اعتماد کا فائدہ اٹھا نا شروع کر دیا ۔ اس نے کلینک کی کمائی روک دی، پریا کو اپنی بیوی ہونے کا دعویٰ کرنے والے دستاویزات بنائے، اور اس کے ساتھ بدسلوکی شروع کر دی۔ صرف اتنا ہی نہیں نمیشا یمن نہیں چھوڑے، اس لئے اس نے سے نمیشا کا پاسپورٹ چھین لیا، اس کی شکایت جب نمیشا نے پولیس میں کی تو ا، عبداللہ المحندی 2016 میں گرفتار کر لیا گیا۔ مگر کچھ دنوں کے بعد وہ رہا ہو گیا۔ رہائی کے بعد مہدی، پریا کے لیے پریشانی کا سبب بن گیا۔سال 2017 میں، مہدی سے اپنا پاسپورٹ حاصل کرنے کی کوشش کے دوران پریا نے عبداللہ المحندی کو بے ہوش کر دینے والی کوئی دوا بلادی۔رپورٹ کے مطابق دوا کی مقدار زیادہ ہو گئی ،جس کے نتیجے میں عبداللہ المحندی کی موت ہوگئی۔ المحند ی کی موت کے بعد پریا نے اپنے ایک یمنی ساتھی حنان کے ساتھ مل کر عبداللہ المحندی کی لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اسے پانی کے ٹینک میں پھینک دیا۔معاملے کی تفتیش ہوئی۔عدالت میں معاملہ چلا۔ یمنی شہری عدنان اور بھارتی شہری نمیشا دونوں قتل کا مجرم قرار دئے گئے۔چنانچہ 7 مارچ، 2018 کو یمن کی عدالت نے نمیشا پریاکی سزائے موت   اور حنان کو عمر قید کی سزا سنائی تھی ۔
نمیشا پریا کا خاندان تبھی سے ان کی رہائی کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔نمیشا پریا کی ماں پریما کماری اور دیگر رشتہ داروںنے یمنی ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف یمنی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی، لیکن 2023 میں اسے مسترد کر دیا گیا۔ نمیشا پریا کی والدہ نے اپریل 2024 میں یمن کا سفر کیا اور 11 سالوں میں پہلی بار جیل میں قید اپنی بیٹی سے ملاقات کی۔ تب سے وہ خلیجی ملک میں اپنی بیٹی کی رہائی کے لیے کوشش کر رہی ہے۔تاہم بلڈ منی کی ادائیگی کا امکان بھی کھلا ہوا ہے۔ نمیشا پریا کی رہائی کا انحصار مقتول کے خاندان اور ان کے قبیلے کے رہنما کو، اسے معاف کرنے پر راضی کرنے پرہے۔نمیشا کی سزائے موت کو تبھی منسوخ کیا جا سکتا ہے، جب مقتول عبد اللہ المحندی کاخاندان اسے معاف کر دیتا یا متعینہ قصاص کی رقم قبول کر لیتا۔  لیکن ابھی سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ پریا کی جانب سے مقرر کردہ وکیل کی فیس کی  ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے آگے کی بات رک گئی۔وکیل نے دو قسطوں میں 40,000 امریکہ ڈالرس کا مطالبہ پیشگی بات چیت کی فیس کے طور پر کیا تھا۔ وکیل نے پوری رقم وصول کرنے تک آگے بڑھنے سے انکار کردیا ہے۔
مختصر میں بات اتنی سی ہے کہ نمیشا پریا کی جان کو بچانے کی واحد امید بس اسی پر ٹکی ہوئی ہے کہ مقتول کے لواحقین سے منت سماجت کرکے انھیں بلڈ منی کی ادائیگی کر دی جائے تاکہ وہ مجرم کو معاف کر دیں اور سزا کو منسوخ کرا دیں۔ تاہم، اب تک تقریباً 4 لاکھ ڈالر یعنی صرف 3.5 کروڑ روپے جمع ہو سکے ہیں، پوری رقم ابھی تک جمع نہیں ہو سکی ہے۔ فنڈ ریزنگ کے لئےنمیشا کے گھر والوں نے  ’’سیو نمیشا پریا انٹر نیشنل ایکشن کونسل ‘‘ بنائی ہے۔ اس تنظیم کی کوشش ہے کہ مرنے والے کے اہل خانہ کے ساتھ سمجھوتہ کر کے انھیں ’’ بلڈ منی‘‘ کی  پوری رقم  ادا کر دی جائے۔اس وقت نمیشا کی حمایت میں کئی تنظیمیں اور مقامی لوگ سرگرم ہیں، جو ان کے حق میں آواز اٹھا رتے ہوئے  یمن کی حکومت سے اسے سزائے موت سے بچانے کی اپیل کررہے ہیں۔
دریں اثناء ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ ایران نے نمیشا پریا کی مدد کرنے کی پیشکش کی ہے۔یہ پیشکش یمن کے صدر محمد رشاد العلیمی کی جانب سے 30 دسمبر کو پریا کی سزائے موت کی منظوری کے بعد سامنے آئی ہے۔ اس پیکش پر عملدرآمد ایک ماہ کے اندر متوقع ہے۔یران نے گزشتہ 2 جنوری کو نمیشاپریا کے معاملے میں مدد کی پیشکش کرتے ہوئے کہاتھا ، ’’ہم انسانی بنیادوں پر جو کچھ بھی کر سکتے ہیں کرنے کو تیار ہیں۔‘‘اس سے قبل 31دسمبر کو، بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے اس کیس کے سلسلے میں ایک بیان جاری کیا تھا۔ بیان میں کہا گیا تھا ،’’ہم یمن میں نمیشا پریا کی سزا سے واقف ہیں۔ خاندان متعلقہ آپشنز کی تلاش کر رہا ہے اور حکومت اس معاملے میں ہر ممکن مدد کر رہی ہے۔ویسے یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب کسی بھارتی شہری کو اسلامی ممالک میں ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ 2008 میں، پنجاب کے بلویندر سنگھ کو سعودی عرب میں قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ 2013 میں، مقتول کے خاندان نے 2 کروڑ کی بلڈ منی پر معاہدہ کیا۔ پنجاب کے لوگوں نے چندہ جمع کرکے بلویندر کو رہا کروایا، اور وہ محفوظ بھارت واپس آگئے۔نمیشا پریا کے معاملے میں بھی ایسا اقدام کیا جا سکتا ہے، لیکن وقت کم ہے۔ قصاص کی رقم (بلڈ منی) جمع کرنے اور سفارتی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
********************