بی جے پی کی سیاست میں نئے موڑکا اشارہ

تاثیر 26  فروری ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

گجرات بلدیاتی انتخابات میں بی جے پی کے 82 مسلم امیدواروں کو کامیابی ملی ہے۔ یہ کامیابی 66 میونسپلٹی انتخابات میں ہوئی ہے۔اس کامیابی نے بی جے پی کے جوش و خروش میں اضافے کے ساتھ، پارٹی کے اندر ایک سنجیدہ بحث شروع کر دی ہے۔ اب یہ بات ہونے لگی ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں 63 فیصد مسلم امیدواروں کی کامیابی اس بات کا اشاریہ ہے کہ اسمبلی انتخابات میں بھی مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا جانا چاہئے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو گجرات میں کسی بھی مسلم امیدوار کو کھڑا نہ کرنے کی بی جے پی کی روایت ٹوٹ سکتی ہے۔گجرات میں بلدیاتی انتخابات کے لیے ووٹنگ 16 فروری کو ہوئی تھی اورنتائج کا اعلان 18 فروری کو کیا گیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ اسٹیٹ الیکشن کمیشن نے ریاست میں کل 2178 سیٹوں کے لیے انتخابات کا اعلان کیا تھا۔ان میں سے 210 سیٹوں پر بی جے پی کی بلامقابلہ جیت ہوئی تھی۔بلا مقابلہ چناؤ جیتے والے ان 210 امیدواروں میں 10 مسلمان بھی ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا پی ایم نریندر مودی نے 2023 بی جے پی کی قومی ایگزیکٹو میٹنگ میں پسماندا مسلمانوں سے رابطے کی ضرورت بتائی تھی۔ اسی سال بھوپال میں ایک ریلی میں انھوں نے کہا یہ بھی کہا تھا کہ ترقی یافتہ مسلمان اپنی ہی کمیونیٹی کے پسماندہ مسلمانوں کا استحصال کرتے ہیں۔ یعنی پسماندوں کو ان کے حقوق سے محروم کرتے ہیں۔ یہ بات اسی وقت سے واضح ہو گئی تھی کہ بی جے پی کا جھکاؤ پس ماندہ مسلمانوں کی جانب ہے۔ سرکاری تنظیم نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن (این ایس ایس او) کے حوالے سے بھی یہ بات کہی گئی تھی کہ مسلمانوں میں او بی سی کی آبادی 40.7 فیصد ہے اور ملک کی کل پسماندہ کمیونٹی کی آبادی میں پس ماندہ مسلمانوں کا حصہ 15.7 فیصد ہے۔ مختلف سروے رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ 65 لوک سبھا سیٹوں پر مسلمانوں کی تعداد 30 فیصد سے زیادہ ہے اور وہ امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 92 سیٹوں پر 20 فیصد سے زیادہ مسلم ووٹر ہیں۔ ان میں سے 41 سیٹوں پر 21 سے 30 فیصد مسلم ووٹر ہیں، 11 سیٹوں پر 41 سے 50 فیصد، 24 سیٹوں پر 31 سے 40 فیصد اور 16 سیٹوں پر 50 فیصد سے زیادہ مسلم ووٹر ہیں۔ اتر پردیش، بہار، بنگال، کرناٹک، آسام جیسی ریاستوں میں مسلم ووٹروں کو بہت بااثر سمجھا جاتا ہے۔ پی ایم کی اپیل پر بی جے پی نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں مسلم ووٹروں سے رابطہ کرنے کے لیے ایک کثیر سطحی منصوبہ بنایا تھا۔ پارٹی نے ہزاروں ’’ اسنیہہ سمواد‘‘ پروگرام منعقد کیے، جن میں بی جے پی کے اقلیتی محاذ نے ملک بھر میں تقریباً 1.5 ہزار اسمبلی حلقوں کا احاطہ کیا۔ ان پروگراموں کے ذریعے 50 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں سے بات چیت کی گئی۔ دوسری طرف، تمام 543 لوک سبھا حلقوں کے مسلمانوں کو ’’مودی دوست‘‘ بنانے کی پہل کی گئی۔ اس پہل کے تحت ہر سیٹ پر 2000 سے زیادہ مسلم مودی دوست بنائے گئے۔ پھر بوتھ مینجمنٹ میں مسلمانوں کی شرکت بھی بڑھائی گئی۔ مسلمانوں کو بی جے پی کے قریب لانے کی کوشش کے تحت یہ نعرے بھی لگائے گئے ، ’’نا دوری ہے نا کھائی ہے ، مودی ہمارا بھائی ہے۔‘‘
اپنےان تمام پروگراموں میں بی جے پی نے مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ کس طرح پی ایم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت نے مسلم کمیونٹی کو ہمہ جہت فلاحی منصوبوں سے جوڑا ہے۔ اس کے علاوہ کانگریس کے طویل دور حکومت میں مسلمانوں کی حالت زار کے بارے میں بھی ان کو بتایا گیا، جس کا ثبوت کانگریس حکومت کے دوران تشکیل سچر کمیٹی کی رپورٹ کے حوالے سے دیا گیا۔بی جے پی کی اس خوشش سے حالات میں تبدیلی بھی آئی ہے۔ اب سیاسی مبصرین بھی مانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ مسلمان بی جے پی کو ووٹ نہیں دیتے ہیں۔ سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹی (سی ایس ڈی ایس) کا بھی کہنا ہے کہ 2014 کے انتخابات میں قومی سطح پر تقریباً 8.5 فیصد مسلم ووٹ بی جے پی کے حق میں گئے۔ بی جے پی کو مسلمانوں کی اتنی حمایت اس سے پہلے کبھی نہیں ملی تھی۔ 2014 سے پہلے بی جے پی کو 2004 میں سات فیصد مسلمانوں کی سب سے زیادہ حمایت حاصل تھی۔ رپورٹ کے مطابق 2009 میں تین فیصد مسلمانوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا تھا۔ 1998 کے لوک سبھا انتخابات میں 5 فیصد مسلمانوں نے اور 1999 میں 6 فیصد مسلمانوں نے بی جے پی کی حمایت کی تھی۔ پھر سیاسی مصلحت کے تحت یہ بیانیہ قائم کرنے کی کوشش کی گئی کہ مسلمانوں کا کسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں، ان کے ذہن میں صرف ایک ہی بات گھومتی رہتی ہے کہ بی جے پی کو کون شکست دے سکتا ہے۔ جس پارٹی اور امیدوار نے بی جے پی کو شکست دینے کی طاقت دکھائی، مسلمانوں نے اس کا ساتھ دیا۔ لیکن گزشتہ سال اتر پردیش اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں 65 فیصد مسلم ووٹروں والی کندرکی سیٹ پر بی جے پی کے امیدوار کی جیت نے بڑا اشارہ دیاتھا۔ اب، گجرات کے بلدیاتی انتخابات میں بی جے پی کے مسلم امیدواروں کی زبردست کامیابی نے شاید کندرکی اسمبلی سیٹ سے پیغام کو مزید واضح کر دیا ہے۔ظاہر ہےاس صورتحال سے بی جے پی میں ایک ایسی توانائی پیدا ہوئی ہے، جو پارٹی کی سیاست کے رخ کو موڑنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔