کاروباری بابا کا متنازع بیان

تاثیر 11  اپریل ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

مشہور کاروباری شخصیت اور پتنجلی کے سربراہ بابا رام دیوایک بار پھر اپنے متنازع بیان کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں انہوں نےمعتبر، قدیم اور معروف یونانی دوا ساز کمپنی ’’ہمدرد ‘‘ کی مشہور پروڈکٹ ’’شربت روح افزا‘‘  کے بارے میں گمراہ کن دعویٰ کیا کہ اس کی آمدنی سے مساجد اور مدارس بنائے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی، وہ اپنی کمپنی کے نئے پروڈکٹ ’’گلاب شربت‘‘ کی تشہیر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی آمدنی سے گروکل، پتنجلی یونیورسٹی اور دیگر ادارے بنائے جائیں گے۔ اس بیان نے نہ صرف سماجی سطح پر تفرقہ انگیزی کو ہوا دی بلکہ ایک مہذب معاشرے کے بنیادی اصولوں،یعنی رواداری، ہم آہنگی اور اخلاقیات—پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ عوام کی جانب سے اس بیان پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے، اور ہر مذہب و طبقے کے لوگ اسے نفرت پھیلانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
بابا رام دیو کا مذکورہ بیان محض ایک پروڈکٹ کی تشہیر سے زیاد ہ نفرت انگیزی ہے۔ یہ ایک ایسی کوشش ہے جو مذہبی جذبات کو بھڑکانے اور سماجی تقسیم کو گہرا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ’’ہمدرد‘‘ ایک معتبر ادارہ ہے، برسوں سے اپنی پروڈکٹس کے ذریعے مختلف طبقات میں مقبولیت حاصل کر چکا ہے۔ ’’شربت روح افزا‘‘ نہ صرف ایک مشروب ہے بلکہ برصغیر کی ثقافتی شناخت کا حصہ بن چکا ہے۔ اسے مساجد یا مدارس سے جوڑنا، بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے، ایک غیر ذمہ دارانہ عمل ہے۔ اس سے نہ صرف ’’ہمدرد‘‘ کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ ایک خاص مذہبی طبقہ کو نشانہ بنانے کی کوشش بھی نظر آتی ہے۔دوسری طرف، پتنجلی کی ’’گلاب شربت‘‘ کو فروغ دینے کے لیے اسے گروکول اور یونیورسٹی سے جوڑنا ایک ایسی حکمت عملی ہے جو صارفین کے جذبات کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن اس کا لہجہ تقسیم پیدا کرنے والا ہے۔سوشل میڈیا پر اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد، عوام نے اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ہر مذہب کے افراد نے اسے غیر اخلاقی اور نفرت انگیز قرار دیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا، ’’یہ شرم ناک ہے کہ ایک کاروباری شخصیت اپنی پروڈکٹ بیچنے کے لیے مذہب کا سہارا لے رہی ہے۔‘‘ ایک اور نے کہا ہے، ’’ہمدرد‘‘ نے کبھی اپنی آمدنی کے استعمال کو مذہبی رنگ نہیں دیا، تو پتنجلی کو یہ حق کس نے دےدیا؟‘‘ اس طرح کے ردعمل سے یہ ظاہرہوتاہے کہ لوگ اس طرح کے بیانات کو معاشرتی ہم آہنگی کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ خاص طور پر، نوجوان نسل، جو سوشل میڈیا پر متحرک ہے، نے اسے تفرقہ انگیزی کی کوشش قرار دیتے ہوئے اس کی مسلسل مذمت کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ، بابا رام دیو کے زہریلے بیان کی ہو رہی مذمت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عوام اب ایسی بیان بازی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔چنانچہ ایک عوامی شخصیت کے طور پر، بابا رام دیو پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے الفاظ کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں۔ ان کا یہ بیان نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ ایک مہذب معاشرے کے اصولوں کے منافی بھی ہے۔ کاروباری مقابلہ جائز ہے، لیکن اسے مذہبی یا فرقہ وارانہ رنگ دینا ناقابل قبول ہے۔’’ ہمدرد‘‘ کے خلاف بے بنیاد الزامات لگانا اور اسے ایک خاص مذہب سے جوڑنا نہ صرف بددیانتی ہے بلکہ معاشرتی تانے بانے کو کمزور کرنے کی کوشش بھی ہے۔ ایک مہذب معاشرہ وہ ہے جہاں کاروبار، سیاست اور سماجی زندگی کو مذہب سے الگ رکھا جائے، لیکن اس بیان نے اس اصول کی صریح خلاف ورزی کی ہے۔قانونی نقطہ نظر سے ، بابا رام دیو کا یہ بیان مذہبی جذبات بھڑکانے اور نفرت پھیلانے کے زمرے میں آ سکتا ہے۔
بھارت جیسے ملک میں، جہاں مذہبی تنوع ایک حقیقت ہے، ایسی باتیں قانون کی نظر میں سنگین جرم تصور ہوتی ہیں۔ بھارتی تعزیرات کے تحت، اگر کوئی بیان یا عمل مذہبی منافرت کو فروغ دیتا ہے، تو اس کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔’’ ہمدرد‘‘ یا متاثرہ فریق اگر اس بیان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں، تو یہ معاملہ عدالتوں تک جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، صارفین کے حقوق کے تحفظ کے قوانین کے تحت بھی اسے گمراہ کن اشتہار بازی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، کیونکہ بغیر ثبوت کے کسی پروڈکٹ یا کمپنی پر الزام لگانا غیر قانونی ہے۔ اس تنازع سے نمٹنے کے لیے ایک معتدل اور اصولی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، بابا رام دیو کو اپنے بیان پر معافی مانگنی چاہئے اور اسے واپس لینا چاہیے۔ اس سے نہ صرف ان کی ساکھ بحال ہوگی بلکہ عوام کا غم و غصہ بھی کم ہوگا۔ دوسرا، پتنجلی کو اپنی تشہیراتی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور ایسی مہمات سے گریز کرنا چاہیے جو سماجی تقسیم کا باعث بنیں۔ تیسرا، میڈیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اس طرح کے مواد کی نگرانی کرنی چاہئے تاکہ نفرت انگیز بیانات کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔ آخر میں، عوام کو بھی چاہئے کہ وہ ایسی باتوں پر جذباتی ردعمل دینے کے بجائے حقائق کی جانچ کریں اور معاشرتی ہم آہنگی کو ترجیح دیں۔
بہر حال بابا رام دیو کا متنازع بیان ایک ایسی مثال ہے کہ کس طرح کاروباری مفادات کے لیے مذہب کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ ایک متنوع معاشرے کے لیے خطرناک بھی ہے۔ عوام کا ردعمل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ لوگ اب ایسی تفرقہ انگیز باتوں کو برداشت نہیں کریں گے۔ ایک مہذب معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب مل کر نفرت اور تقسیم کے بیج بونے والوں کے خلاف آواز اٹھائیں۔ بابا رام دیو کو چاہئے کہ وہ اپنی عوامی حیثیت کا احترام کریں اور آئندہ ایسی بیان بازی سے گریز کریں۔ صرف رواداری، مکالمہ اور باہمی احترام ہی ہمیں ایک پرامن اور ہم آہنگ معاشرے کی طرف لے جا سکتا ہے۔
******************