تاثیر 16 اپریل ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
سپریم کورٹ میں وقف(ترمیمی )ایکٹ 2025 کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے والی 73 درخواستوں پر کل سماعت ہوئی۔چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشوناتھن کی تین رکنی بنچ نے اس اہم کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزاروں کا موقف تھا کہ یہ قانون آئین کے آرٹیکل 26 کی خلاف ورزی کرتا ہے۔یہ آرٹیکل مذہبی معاملات کے انتظام کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وقف(ترمیمی )ایکٹ 2025 مسلمانوں کی مذہبی آزادی اور جائیداد کے حقوق کو پامال کرتا ہے۔ معاملے کی سماعت کے دوران عدالت نے حکومت سے غیر مسلموں کو وقف بورڈ میں شامل کرنے اور اس کے مقابلے میں مسلمانوں کو ہندو مذہبی ٹرسٹوں میں شمولیت کی اجازت دینے کے بارے میں سوال کیا۔کل کی سماعت نے کئی اہم نکات کو اجاگر کیا ہے۔ظاہر ہےان پر آگے بحث ہوگی۔مگر کل کی سماعت کے دوران چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے واضح کیا کہ تمام درخواست گزاروں کو سننا ممکن نہیں، اس لیے منتخب وکلاء ہی دلائل پیش کریں گے اور کوئی دلیل دہرائی نہیں جائے گی۔ عدالت نے آرٹیکل 26 کی غیر جانبدارانہ نوعیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ تمام مذہبی برادریوں پر یکساں طور پرلاگو ہوتا ہے۔ جسٹس وشوناتھن نے کہا کہ جائیداد غیر مذہبی ہو سکتی ہے، لیکن اس کا انتظام مذہبی نوعیت کا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے بار بار دلائل دہرانے سے گریز کی ہدایت دی۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ وقف قانون پر کوئی عبوری پابندی عائد نہیں کی جائے گی۔ تاہم، چیف جسٹس نے واضح کیا کہ جو جائیدادیں وقف قرار دی جا چکی ہیں، انہیں غیر وقف قرار نہیں دیا جائے گا۔ڈسٹرکٹ کلکٹر اپنی کارروائی جاری رکھ سکتے ہیں، لیکن قانون کے بعض شقوں کو نافذ نہیں کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ، وقف بورڈ میں عہدیداروں کی تقرری مذہب سے قطع نظر کی جا سکتی ہے، لیکن دیگر اراکین کا مسلم ہونا ضروری ہے۔عدالت نے حکومت سے دو اہم پہلوؤں پر غور کرنے کو کہا: پہلا، کیا اس کیس کی سماعت سپریم کورٹ کو جاری رکھنی چاہئے یا اسے ہائی کورٹس کو منتقل کر دینا چاہئے؟ دوسرا، درخواست گزار اپنے دلائل کو مختصر اور واضح طور پر پیش کریں تاکہ اصل تنازع کو سمجھا جا سکے۔
ٍٍ سینئر ایڈووکیٹس کیپل سبل اور راجیو دھون نے عدالت میں کہا کہ وقف اسلام کا لازمی جزو ہے اور حکومت اس میں مداخلت نہیں کر سکتی ہے۔ کپل سبل نے زور دیا کہ یہ قانون نہ صرف مذہبی آزادی پر حملہ ہے بلکہ مسلم جائیدادوں پر حکومتی قبضے کی کوشش ہے۔ انہوں نے قانون کی کئی شقوں، بالخصوص شق 3(آر)، 3(اے)(2)، 3(سی)، 3(ای)، 9، 14 اور 36 کو غیر آئینی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ شقیں مسلمانوں کو ان کے مذہبی، سماجی اور جائیداد سے متعلق حقوق سے محروم کرتی ہیں۔بحث کے دوران کپل سبل نے اہم نکات اٹھائے مثلاََ:شق 3(آر): وقف کی تعریف میں ریاستی مداخلت غیر آئینی ہے۔شق 3(اے)(2): خواتین کے جائیداد کے حقوق میں دخل اندازی۔شق 3(سی): سرکاری جائیداد کو خود بخود وقف نہ ماننا۔شق 14: بورڈ میں نامزدگی سے اقتدار کا ارتکاز۔شق 36: بغیر رجسٹریشن کے جائیداد کا مذہبی استعمال ممکن۔شق 7(اے) اور 61: عدالتی عمل میں غیر وضاحت۔ اس موقع سےسولیسٹر جنرل تشار مہتا نے حکومت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وقف قانون کا مقصد صرف جائیداد کا ضابطہ کاری کرنا ہے، نہ کہ مذہبی معاملات میں مداخلت کرنا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ٹرسٹی کے طور پر کام کر سکتی ہے اور ضلع کلکٹر کو جائیداد کے تنازعات کے فوری حل کے لیے فیصلہ سازی کا اختیار دیا گیا ہے۔ مہتا نے بتایا کہ 1995 سے 2013 تک وقف بورڈ کے اراکین کی نامزدگی مرکز ہی کرتا رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وقف ٹریبونل ایک عدالتی ادارہ ہے اور عدالتی جائزے کا حق برقرار ہے۔
وقف قانون کے حوالے سے یہ مانا جا رہا ہے کہ عدالت معاملے کی سماعت کے بعد ترامیم کو برقرار رکھتے ہوئے ان کے نفاذ کے لیے رہنما اصول جاری کر سکتی ہے تاکہ شرعی قوانین اور آئینی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔وقف( ترمیمی )ایکٹ کا مستقبل نہ صرف قانونی بلکہ سیاسی اور سماجی عوامل پر بھی منحصر ہے۔ اگر عدالت ترامیم کو مکمل یا جزوی طور پر کالعدم قرار دیتی ہے، تو یہ مسلم کمیونٹی کے لیے ایک اہم فتح ہوگی، لیکن اس سے سیاسی تنازعات بڑھ سکتے ہیں۔ بی جے پی اسے اپنی انتخابی مہم کے حصے کے طور پر استعمال کر سکتی ہے، جیسا کہ ایکس پر کچھ پوسٹس میں اشارہ کیا گیا ہے کہ پارٹی ترامیم کے فوائد کو مسلم ووٹروں تک پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے۔دوسری جانب، اگر ترامیم برقرار رہتی ہیں، تو وقف بورڈز کے ڈھانچے اور ان کے اختیارات میں نمایاں تبدیلیاں آئیں گی۔ اس سے وقف املاک کے انتظام میں شفافیت بڑھ سکتی ہے، لیکن مسلم تنظیموں کے تحفظات کو نظر انداز کرنے سے سماجی بے چینی بڑھ سکتی ہے۔اس طرح وقف( ترمیمی) ایکٹ 2025 کے خلاف سپریم کورٹ کی سماعت ایک نازک موڑ پر ہے۔ سینئر وکیلوں کی رائے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدالت کو آئینی تقاضوں، شرعی اصولوں اور سماجی اصلاحات کے درمیان توازن قائم کرنا ہوگا۔ امکان ہے کہ عدالت عبوری حکم جاری کرے گی یا ترامیم کے متنازع حصوں پر نظرثانی کرے گی۔ظاہر ہے اس فیصلے کے اثرات نہ صرف وقف املاک کے انتظام بلکہ بھارت کی سیکولر شناخت اور مذہبی ہم آہنگی پر بھی پڑیں گے۔ اگلی سماعت کے نتائج اس قانون کے مستقبل کو واضح کریں گے، لیکن فی الحال یہ معاملہ قانونی، سیاسی اور سماجی بحث کا مرکز بنا ہوا ہے۔