تاثیر 18 اکتوبر ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
بہار اسمبلی انتخابات 2025 کا عمل بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ سیاسی فضا میں جوش و خروش ہے، لیکن اتحادوں کے درمیان بے اعتمادی اور بیانیے کی جنگ بھی اپنے عروج پر ہے۔ ایک طرف این ڈی اے کے کیمپ میں انتخابی تیاریوں اور جلسوں کی گونج ہے، تو دوسری جانب مہاگٹھ بندھن اب بھی سیٹوں کے بٹوارے میں الجھا ہوا ہے۔ آر جے ڈی، کانگریس اوربائیں محاذ کے درمیان اختلافات نے اتحاد کی مضبوطی پر سوال اٹھا دیے ہیں۔ بعض نشستوں پر دوہری امیدواری نے نہ صرف ووٹوں کی تقسیم کا خطرہ بڑھا دیا ہے بلکہ یہ تاثر بھی دیا ہے کہ اپوزیشن بلاک کے اندر تنظیمی کمزوری برقرار ہے۔ اس کے برعکس، بی جے پی نے انتخابی مہم کو منظم اور جارحانہ انداز میں شروع کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ کسی بھی سطح پر انتخابی مہم کو کمزور نہیں پڑنے دے گی۔
بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی دوہری نوعیت کی ہے، ایک طرف وہ ترقی، سرمایہ کاری اور مرکزی حکومت کی پالیسیوں کو عوام کے سامنے پیش کر رہی ہے، تو دوسری طرف مذہبی جذبات کو ابھار کر ووٹروں کو متحرک کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ، ریکھا گپتا اور موہن یادو جیسے قائدین کی تقاریر میں ہندوتوا کی گونج صاف سنائی دے رہی ہے۔ ’’ایودھیا کے بعد متھرا‘‘ کا نعرہ، چھٹھ پوجا کے حوالے سے مذہبی جوش، اور ’’بُرقہ بمقابلہ وکاس‘‘ جیسے استعارے دراصل اس بات کا اعلان ہیں کہ بی جے پی انتخابی میدان کو مذہبی اور نظریاتی رنگ دینے سے گریز نہیں کرے گی۔ ریکھا گپتا کی تقاریر میں چھٹھ میلہ، اشوک دھام اور مودی کی تعریف کے امتزاج نے مذہب اور سیاست کے میل کو ایک نئی سمت دی ہے۔
سیاسی بیانیے کی سطح پر وزیر داخلہ امیت شاہ کا کردار غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ ان کی تقریریں نہ صرف بی جے پی کے روایتی ووٹروں کو جوڑنے کی کوشش کر رہی ہیں بلکہ انہیں ’’جنگل راج بمقابلہ گڈ گورننس‘‘ کے بیانیے میں ایک نئی معنویت دے رہی ہیں۔ انہوں نے واضح پیغام دیا ہے کہ اب لڑائی ’’جنگل راج حکومت‘‘ کے خلاف نہیں بلکہ ’’جنگل راج سوچ‘‘ کے خلاف ہے۔ شاہ کے بیانات میں این ڈی اے کی پالیسیوں کا ذکر کم اور اپوزیشن پر طنز زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ وہ مسلسل یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بہار کو بدعنوانی، اقربا پروری اور لالو یادو کی خاندانی سیاست سے نجات دلانا بی جے پی کی سب سے بڑی کامیابی رہی ہے۔ اس بیانیے کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ این ڈی اے کا مقصد ریاست میں ترقی اور امن و امان کو برقرار رکھنا ہے، جس کا سہرا نتیش کمار کے سر جاتا ہے۔
البتہ امیت شاہ کا ایک حالیہ بیان، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’انتخابات کے بعد وزیر اعلیٰ کا فیصلہ منتخب اراکین اسمبلی کریں گے‘‘، کی بازگشت ابھی بھی بہارکے سیاسی گلیاروں میں گونج رہا ہے۔ جے ڈی یو کو اس بیان سے تشویش ہے، کیونکہ ان کے بیان سے یہ پیغام گیا تھا کہ بی جے پی نتیش کمار کی قیادت کو مستقل طور پر قبول کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ تاہم، اگلے ہی دن امیت شاہ کی نتیش کمار سے ملاقات نے وقتی طور پر صورتحال کو سنبھال لیا۔ مبصرین کے مطابق، یہ ملاقات صرف انتخابی حکمتِ عملی کی نہیں بلکہ سیاسی اعتماد کی بحالی کی کوشش بھی تھی۔ بہار میں این ڈی اے کا توازن اگرچہ فی الحال برقرار ہے، لیکن سی ایم چہرے کے سوال پر اندرونی رسہ کشی کے آثار نمایاں ہیں۔
مہاگٹھ بندھن کے لئے صورت حال کہیں زیادہ مشکل ہے۔ اتحاد کے اندر قیادت کی کشمکش، سیٹ شیئرنگ کیں غیر ضروری تاخیر اور امیدواروں کے انتخاب میں اختلافات نے اسے اندر سے کمزور کر دیا ہے۔ تیجسوی یادو اگرچہ جوش و خروش کے ساتھ مہم چلا رہے ہیں، لیکن کانگریس اور دیگر اتحادیوں کے اختلافات نے ان کے لئے ایک متحدہ محاذ قائم کرنا مشکل بنا دیا ہے۔ اس کے برعکس، این ڈی اے ایک مربوط بیانیے کے ساتھ عوام تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے، ایک طرف مودی کی مرکزی قیادت اور دوسری جانب نتیش کمار کی مقامی ساکھ۔ دونوں مل کر ایک ایسا تاثر دینے میں کامیاب ہو رہے ہیں کہ وہ ترقی اور استحکام کے ضامن ہیں۔
بہار کے سیاسی منظرنامے پر اگر غیر جانب دارانہ نظر ڈالی جائے تو یہ واضح ہے کہ یہ الیکشن محض اقتدار کی جنگ نہیں، بلکہ بیانیے اور قیادت کی آزمائش بھی ہے۔ بی جے پی جہاں مذہبی اور قومی جذبات کو استعمال کر رہی ہے، وہیں مہاگٹھ بندھن اب تک عوامی ایشوز کو مؤثر طریقے سے اجاگر نہیں کر پایا ہے۔ اگر اپوزیشن بلاک نے جلد کوئی متحدہ حکمت عملی اختیار نہیں کی تو آنے والے دنوں میں بہار کی سیاست ایک مرتبہ پھر ’’ہندوتو بمقابلہ سماجی انصاف‘‘ کے دائمی تصادم کی گرفت میں آ سکتی ہے، اور فی الحال اس جنگ میں برتری این ڈی اے کے خیمے کو حاصل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
***********

